Tuesday, December 17, 2019

قصّہ مشرف کی علامتی سزا کا- از ڈی اصغر






آپ نے آج ٹی وی پر سب سے بڑی یہ خبر سنی کہ سابق صدر اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کے الزام میں سزاے  موت دی جایے  گی.سب جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں یہ صرف علامتی سزا ہے. حکومتی ترجمان اور کچھ تجزیہ نگار یہ اچھل اچھل کے کہہ رہے ہیں کہ صرف مشرف کو کیوں باقیوں کو کیوں نہیں. اگر لمحے بھر کو سوچیں تو یہ اپنے اندر ایک اعتراف جرم ہے.

 ان  کا اصرار ہے کہ مشرف کا ایک وزیر اعظم تھا۔ ایک کابینہ تھی۔ جس وقت #مشرف نے نومبر ٢٠٠٧  میں ایمرجینسی لگائ صدارتی نظام رائج تھا۔ یعنی وزیر اعظم کابینہ کے ممبران وغیرہ سب #مشرف کے ماتحت تھے۔ #مشرف گو کہ اس وقت آرمی کے چیف نہیں تھے لیکن اپنے اقدامات سے وہ یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ مطلق العنان ہیں۔ جن کی یادداشت کمزور ہو وہ #یوٹیوب پر جا کر نومبر ٢٠١٧ کے حالات کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں. 

اختیار اور طاقت کا ایک اصول ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ جس کے پاس فیصلہ سازی کا آخری اور حتمی اختیار ہوتا ہے۔ فیصلہ اس کا ہی تصور کیا جاتا ہے۔ جن کو بھی رتی برابر سیاست سے دلچسپی ہے وہ جانتے ہیں کہ #مشرف  بطور صدر مختار کل تھے.  ان کی رعونت اپنی انتہا پر تھی. سو اقدام ان کا ہی تصور کیا جاے گا. یہاں وہ دوسروں کو گھسیٹ بھی لیں تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ بادشاہ سلامت کا حکم تھا.

 آئیے اب اس سوال کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ نومبر ٢٠٠٧ ہی کیوں اور اکتوبر ١٩٩٩ کیوں نہیں. کیونکہ بڑی مکاری سے اپنے اس اقدام کو جناب نے ٢٠٠٤ کی پارلیمان سے منظور کروالیا تھا۔ لہذا اس وقت پھر جناب کی چھڑی کے ڈر سے یا اس وقت کے تقاضے کے مطابق ان  سب نے ان کو آئینی کوور دے دیا تھا۔لہذا آپ کسی ایسے اقدام کو ٹرائ نہیں کرسکتے کہ جس کو پارلیمان درست تسلیم کرچکی ہو۔
  
  ایک آخری نقطہ  کی صدا سنای دیتی ہے #مشرف کے باقی کے ١٩٩٩ کے کور کمانڈروں 
    کو کیوں نہیں شامل کیا گیا۔ تو بھائ ابھی عرض کیا کہ سوال ١٩٩٩ نہیں ہے۔
اب اس کا ہو گا کچھ نہیں۔ یہ علامتی سزا ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ ہوا، وہ بھی اگر ہوا تو صدر پاکستان معافی دے دیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلی۔